حلال و حرام کے متعلق سوالات
- Admin
- Dec 15, 2021
اسلامی سال کی ابتدا یعنی ماہِ محرم میں شادی یا منگنی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور نہ ہی یہ مکروہ یا محرم ہے، اسکے متعدد دلائل ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
1- جس چیز کے بارے میں کوئی مخصوص حکم نہ ہو تو وہ کام اصل کے اعتبار سے مباح ہوتا ہے، اور علمائے کرام کے مابین یہ متفق علیہ قاعدہ ہے کہ عادات میں جب تک حرمت کی دلیل نہیں ملتی تو اصل جواز ہی ہے، چنانچہ کتاب وسنت ، اجماع، یا قیاس ، اور آثار وغیرہ میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی جو ماہِ محرم میں نکاح وغیرہ سے مانع ہو، اس لئے اباحتِ اصلیہ کی بنا پر ماہِ محرم میں نکاح جائز ہے۔
2- اس بارے میں علمائے کرام کا کم از کم اجماعِ سکوتی ہے، کہ ہمیں صحابہ کرام، تابعین، ائمہ کرام اور انکے علاوہ دیگر متقدمین یا متاخرین میں سے کوئی بھی ایسا عالم نہیں ملا جو اس ماہ میں شادی ، بیاہ، اور منگنی کو حرام یا کم از کم مکروہ ہی سمجھتا ہو۔
لہٰذا اگر کوئی منع کرتا ہے تو اسکی تردید کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اسکے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، اور علمائے کرام میں سے کوئی بھی اسکے موقف کا قائل نہیں ہے۔
3- ماہِ محرم اللہ تعالی کے عظمت والے مہینوں میں سے ایک ماہ ہے، اور اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالی کے مہینے محرم کے ہیں) مسلم: (1163)
تو یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کی نسبت اللہ تعالی نے اپنی طرف فرمائی ہے۔ اس ماہ میں نفل روزوں کا ثواب دیگر مہینوں سے زیادہ ہے، اس لئے اس ماہ کی برکت، اور فضیلت پانے کیلئے پوری کوشش کرنی چاہیے، چنانچہ اس ماہ میں غمگین رہنا، یا شادی کرنے سے ہچکچانا، یا جاہلی دور کی طرح بد فالی لینا سب غلط ہے۔
4- اور اگر کوئی شیعہ حضرات کی طرح اس مہینے میں شادی کی ممانعت کیلئے دلیل حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو بنائے ، تو اسے کہا جائے گا:
بلا شک و شبہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دن تاریخ اسلامی میں بہت ہی تاریک دن ہے، لیکن اس عظیم سانحے کی وجہ سے شادی یا منگنی کو حرام کر دینے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ہماری شریعت میں سالانہ برسی وغیرہ کے موقعوں پرغم تازہ کرنے اور سوگ منانےکی اجازت نہیں ہےاور نہ ہی یہ کہ ان دنوں میں خوشی کا اظہار کرنا منع ہے۔
اگر اس بات پر وہ اتفاق نہ کریں تو ہمیں یہ پوچھنے کا حق بنتا ہے کہ : کیا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے وہ دن امت کیلئے سب سے غمگین دن نہیں ہے؟! تو پھر مکمل ماہِ ربیع الاول میں شادی کرنا منع کیوں نہیں کرتے؟! یا اس ماہ میں شادی بیاہ کی حرمت یا کراہت صحابہ کرام سے منقول کیوں نہیں ہے؟ یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل و اولاد اور انکے بعد آنے والے علمائے کرام سے منقول کیوں نہیں ہے؟!
اگر ہمارا یہی حال رہا کہ جس دن بھی کوئی اسلامی شخصیت یا اہل بیت کا کوئی فرد فوت ہویا اسے شہید کیا گیا ہو، ہم ہر سال اس غم کو تازہ کرنے لگ جائیں، تو ہمارے لئے خوشی اور مسرت کا کوئی دن باقی نہیں رہے گا، اور لوگوں کو ناقابل برداشت حد تک مشقت اٹھانی پڑے گی۔
یقیناً دین میں نت نئے احکام ایجاد کرنا اسلام مخالف لوگوں کا کام ہے، اور یہ لوگ اللہ تعالی کی طرف سے مکمل کر دیے جانے والے دین میں بھی کمی کوتاہی نکالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ بات پھیلانےاور ماہِ محرم میں سوگ کی ابتداکرنے والا شاہ اسماعیل صفوی (907 تا 930 ہجری) ہے ، چنانچہ ڈاکٹر علی وردی " لمحات اجتماعية من تاريخ العراق " (1/59) میں کہتے ہیں کہ : "شاہ اسماعیل صفوی نے شیعی مذہب پھیلانے کیلئے صرف دہشت گردی ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کیلئے ایک اور مضبوط وسیلہ بھی اپنا؛ اور وہ تھا شیعی مذہب کی ترویجی مہم اور ذہن سازی، اس کے لئے بالکل اسی طرح "مجالس شہادتِ حسین" منعقد کی گئیں جیسے آج کل کی جاتی ہیں، سب سے پہلے ان محفلوں کو بنی بَوَیہ نے بغداد میں چوتھی صدی ہجری میں شروع کیا تھا، لیکن بنی بویہ کی حکومت ختم ہونے کے بعد یہ مجالس بھی ختم ہوگئیں، اس کے بعد شاہ اسماعیل صفوی نے آکر دوبارہ نئے جذبے سے ان مجالس کو شروع کیا، اور اس میں عزاء داری کا بھی اضافہ کر دیا، جس کی وجہ سے دلوں میں ان مجالس کا خوب اثر رچ بس گیا، اور یہ کہنا بھی بعید از حقیقت نہیں ہوگا کہ : ایران میں شیعی مذہب کے انتشار کا سبب بھی یہی تھا؛ کیونکہ ان مجالس میں رونا دھونا ہوتا ، آل بیت کے لئے غم کا اظہار کیا جاتااور طبلےبجائے جاتےتھے۔ ان تمام چیزوں کے جمع ہونے سے شیعی نظریات کی دل پر مؤثر ضرب لگتی تھی "انتہی
5- کچھ مؤرخین نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی صحیح ترین تاریخ جو بتلائی ہے وہ ہجرت کے تیسرے سال کی ابتدا ہے۔
جیسے کہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بیہقی نے ابو عبد اللہ بن مندہ کی کتاب: "المعرفہ" میں ذکر کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی ہجرت سے ایک سال بعد کی، اور رخصتی مزید ایک سال بعد ہوئی، چنانچہ اس طرح سے رخصتی کا سال ہجرت کے تیسرے سال کی ابتدا بنتا ہے" انتہی
" البداية والنهاية " (3/419)
اس بارے میں دیگر اقوال بھی ہیں، لیکن اسے بیان کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ محرم میں شادی کو کسی بھی عالم دین نے برا نہیں جانا، بلکہ جو اس ماہ میں شادی کریگا اس کیلئے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ اور قدوہ حسنہ موجود ہے۔
اور اسی طرح
حضور سیدی سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ ماہ محرم الحرام و صفر میں نکاح کرنا منع ہے یا نہیں؟ تو آپ نے جواب دیا نکاح کسی مہینے میں منع نہیں۔
فتاوی رضویہ شریف جلد 11صفہ 265 اسی طرح احکام شریعت حصہ اول صفحہ/127/ وغلط فہمیاں اورانکی اصلاح صفحہ نمبر/132/133
( واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ )
نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نعت پاک پڑھنا بلا شبہ باعثِ ثواب، باعثِ برکت، سببِ نزولِ رحمتِ خداوندی اور نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا و خوشنودی اور آپ کی محبت میں اضافے کا سبب ہے، لیکن باقی تمام معاملات کی طرح اس میں بھی شریعت کی پاسداری لازم ہے، لہٰذا دَف اگر جھانج کے ساتھ ہو تواس کا بجانا مطلقاً ناجائز ہے،جھانج والی دَف کے ساتھ نعت پڑھنازیادہ ممنوع اور سخت گناہ ہےاور اگر دَف کے ساتھ جھانج نہ ہو تو دف بجانے کی اجازت تین شرطوں کے ساتھ ہے اگر ان میں سے ایک بھی کم ہو تو اجازت نہیں،پہلی شرط یہ ہے کہ ہیئتِ تَطَرُّب پر نہ بجایا جائے یعنی قواعد ِموسیقی کی رعایت نہ کی جائے، دوسری شرط یہ ہے کہ بجانے والے مرد نہ ہوں کہ ان کے لئے دَف بجانا مطلقاً مکروہ ہے، تیسری شرط یہ ہے کہ بجانے والی عزت دار بیبیاں نہ ہوں اور جو بچیاں وغیرہ بجائیں وہ بھی غیرِ مَحَلِّ فتنہ میں بجائیں تو جائز ہے اور حدیث مبارکہ میں جس دَف کے بجانے کا ذکر ہے وہ اسی انداز پر تھا۔آج کل جو طریقہ رائج ہے اس میں دَف بجانے کی مکمل شرائط نہیں پائی جاتیں، تو ایسا دَف بجانا اور اس کے ساتھ نعت پڑھنا جائز نہیں۔
رہی بات نعت پاک کے ساتھ ذکر کی تو نعت کے ساتھ جس طرح ذکر کرنا رائج ہے کہ اس میں ڈھول سے مشابہ آواز پیدا ہوتی ہے اور اس ذکر کو بطور بیک گراؤنڈ (Back Ground) کے نعت میں دلکشی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس سے اکابر علماءِ کرام نے منع کیا ہے، ہمارے یہاں کا فتوی بھی یہی ہے اور بعض جگہ تو ذاکرین کو دیکھا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالٰی کا ذکر ہی نہیں کرتے یا کرتے ہیں تو بگاڑ کر تاکہ اچّھی طرح دھمک پیدا ہو یہ سخت بے ادبی اور ناجائز ہے، اس ذکر کا سننا بھی منع ہے۔
سیدی سرکار اعلی حضرت امام احمد رضاخان علیہ الرحمہ والرضوان دف بجانے کے جوازکی شرائط بیان کرتے ہوے رقم طراز ہیں۔
علماء شرط لگاتے ہیں کہ قواعد موسیقی پر نہ بجایا جاے تال سم کی رعایت نہ ہو نہ اس میں جھانج ہوں کہ وہ خود ہی نخواہی مطرب وناجائز ہیں پھر اس کا بجانا بھی مردوں کو ہر طرح مکروہ ہے۔
فتاوی رضویہ جلد23 ص (282)
اور جب مفتی اعظم ھند حضرت علامہ محمد مصطفے رضا خان علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ دف بجاکر قصائد نعت اور حالت قیام میلاد شریف میں صلاة وسلام پڑھنا جائز ہے یا ناجائز دف مع جھانج ہو تو کیا حکم ہے اور بلاجھانج ہوتو کیا حکم ہے ؟؟
تو جوابا ارشاد فرمایا ہرگز نہ چاہیے کہ سخت سوء ادب ہے اور اگر جھانج بھی ہوں یا اس طرح بجایا جاے کہ گت پیدا ہوفن کے قواعد پرجب تو حرام اشدحرا م حرام در حرام۔
فتاوی مصطفویہ ص(448)
ازقلم: حــضــــرت عـــلامــہ ومـــــولانـــا مـحــمــداســمـاعــیـل خــان رضوی امجدی صاحب
تصویر کشی اللہ رب العالمین نے حرام کر رکھی ہے , رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالى نے فرمایا :
اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جو میری مخلوق جیسی تخلیق کرنا چاہتا ہے , یہ کوئی دانہ یا ذرہ بنا کر دکھائیں ۔
الله کے ہاں قیامت کے دن سب سے سخت عذاب تصویریں بنانے والوں کو ہوگا۔
قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کی تخلیق کی نقالی کرتے ہیں ۔ مندرجہ بالا احادیث اور دیگر بہت سے دلائل تصویر کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں , اور یہ ایسا مسئلہ ہے کہ جس پر امت کا اتفاق ہے ۔ اور جو اختلاف ہے وہ اس بات میں واقع ہوا ہے کہ تصویر بنانے کے جدید ذرائع فوٹوگرافی , مووی میکنگ وغیرہ کیا حکم رکھتی ہے ؟ کچھ اہل علم کی رائے یہ ہے کہ یہ تصاویر نہیں ہیں بلکہ یہ عکس ہے , اور عکس کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے , لہذا فوٹو گرافی اور مووی بنانا جائز اور مشروع عمل ہے ۔ جبکہ اہل علم کا دوسرا گروہ اسے بھی تصویر ہی سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تصویر کی جدید شکل ہے , چونکہ تصویر کی حرمت میں کوئی شبہہ نہیں ہے , لہذا فوٹو گرافی اور ویڈیو ناجائز اور حرام ہے ۔
اہل علم کا ایک تیسرا گروہ یہ رائے رکھتا ہےکہ یہ تصویر ہی ہے , لیکن بامر مجبوری ہم دین کی دعوت و تبلیغ کی غرض سے ویڈیو کو استعمال کرسکتے ہیں ۔ یہ رائے اکثر اہل علم کی ہے جن میں عرب وعجم کے بہت سے علماء شامل ہیں ۔ یعنی اس تیسری رائے کے حاملین نے ویڈیو کو اصلاً مباح اور حلال قرار نہیں دیا ہے , لیکن دینی اصول " اضطرار" کو ملحوظ رکھ کر قاعدہ فقہیہ " الضرورات تبيح المحظورات " ( ضرورتیں ناجائز کاموں کو جائز بنا دیتی ہیں ) پر عمل پیرا ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کے اس تیز ترین دور میں ویڈیو کو تبلیغ دین کے مقاصد میں بامر مجبوری استعمال کرنا مباح قرار دیا ہے , یعنی دعوت و تبلیغ کے علاوہ , یہ گروہ بھی اسے ناجائز ہی سمجھتا ہے , اور بلا امر مجبوری اسے جائز قرار نہیں دیتا ہے ۔ اس اعتبار سے اس گروہ کی رائے مقدم الذکر دونوں گروہوں کی رائے کے مابین ہے ۔
لیکن مسئلہ چونکہ اجتہادی ہے اس میں خطأ کا امکان بھی بہر حا ل موجود ہی ہے , لہذا دیکھنا یہ ہے کہ ان تینوں فریقوں کے کیا دلائل ہیں اور ان تینوں میں سے مضبوط دلائل کس گروہ کے پاس ہیں کیونکہ اجتہادی مسئلہ میں بھی جب مجتہدین کی آراء مختلف ہو جائیں تو حق اور صواب کسی ایک ہی گروہ کے پاس ہوتا ہے۔ اور ہماری تحقیق کے مطابق دوسرے گروہ کی بات مبنی برحق ہے ۔ اور پہلا گروہ اسے عکس قرار دیکر غلطی پر ہے اور تیسرا گروہ " اضطرار" کا لفظ بول کر "حیلہ" کا مرتکب ہے۔ اس اجما ل کی تفصیل ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں : سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لیں کہ عکس اور تصویر میں کیا فرق ہے ؟ عکس اسوقت تک باقی رہتا ہے جب تک معکوس سامنے موجود ہو , اور جونہی معکوس سامنے سے غائب ہو جائے عکس بھی غائب ہو جاتا ہے ۔ اور پھر جس پانی یا آئینہ پر عکس دیکھا گیا ہے دوبارہ اس آئینہ پر وہ عکس کبھی نہیں دیکھا جاسکتا جبتک معکوس کو دوبارہ آئینہ کے روبرو نہ کیا جائے ۔ اور تصویر در اصل اسی عکس کو محفوظ کرلینے سے بنتی ہے ۔!!! کیونکہ مصور کسی بھی چیز کو دیکھتا ہے تو اس چیز کا عکس اسکی آنکھیں اسکے دماغ میں دکھاتی ہیں پھر اسکے ہاتھ اس عکس کو کسی کاغذ , چمڑے , لکڑی یا پتھر , وغیرہ پر محفوظ کر دیتے ہیں تو اسکا نام تصویر ہو جاتا ہے جسکی حرمت پر احادیث دلالت کرتی ہیں اور تمام امت جنکی حرمت پر متفق ہے ۔ اختلاف صرف واقع ہوا ہے تو جدید آلات سے بنائی جانے والی تصاویر پر , لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہی بات سمجھ آتی ہے کہ ان آلات یعنی کیمرہ وغیرہ سے بنائی جانے والی تصاویر بھی تصاویر ہی ہیں عکس نہیں ہیں !!! , کیونکہ اس دور جدید میں جسطرح اور بہت سے کام مشینوں سے لیے جانے لگے ہیں اسی طرح تصویر کشی کا کام بھی جدید آلات کے سپرد ہوگیا ہے ۔ ان کیمروں سے تصویر کھینچنے والا اپنے ہاتھ سے صرف اس مشین کا بٹن دباتا ہے جسکے بعد وہ سارا کام جو پہلے پہلے ہاتھ سے ہوتا تھا اس سے کہیں بہتر انداز میں وہ مشین سر انجام دے دیتی ہے ۔
اور ویڈیو کیمرے کے بارہ میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ یہ متحرک تصویر بناتا ہے , حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ ویڈیو کمیرہ بھی متحرک تصویر نہیں بناتا بلکہ ساکن تصاویر ہی بناتا ہے لیکن اسکی تصویر کشی کی رفتار بہت تیز ترین ہوتی ہے , ایک ویڈیو کیمرہ ایک سیکنڈ میں تقریبا نو صد (900) سے زائد تصاویر کھینچتا ہے , اور پھر جب اس ویڈیو کو چلایا جاتا ہے تو اسی تیزی کے ساتھ انکی سلائیڈ شو کرتاہے ۔ جسے اس فن سے نا آشنا لوگ متحرک تصویر سمجھ لیتے ہیں حالانکہ وہ متحرک نہیں ہوتی بلکہ ساکن تصاویر کا ہی ایک تسلسل ہوتا ہے کہ انسانی آنکھ جسکا ادراک نہیں کرسکتی ۔ آپ دیکھتے ہیں جب پنکھا اپنی پوری رفتا ر سے چل رہا ہو تو اسکی جانب دیکھنے والے کو پنکھے کے پر نظر نہیں آتے بلکہ اسے پنکھے کی موٹر کے گرد ایک ہالہ سا بنا دکھائی دیتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید اسکے پر نہیں ہیں بلکہ ایک شیشہ سا ہے جو اسکے گرد تنا ہوا ہے ۔ جبکہ ذی شعور اور صاحب علم افراد یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد یقین رکھتے ہیں کہ یہ ہماری آنکھوں کا دھوکہ ہے , پنکھے کے پر یقینا موجود ہیں اور وہی گھوم کر ہمیں ہوا دے رہے ہیں , لیکن جس شخص نے پنکھے کو ساکن حالت میں نہ دیکھا ہو گا شاید وہ اس بات پر یقین نہ کرسکے ۔ یہ تو ایک پنکھے کی مثال ہے جسکی رفتار ویڈیو کیمرے سے کم ازکم پانچ گنا کم ہوتی ہے ۔ہماری اس بات کو وہ لوگ بخوبی سمجھتے ہیں جو" مووی میکنگ اور ایڈیٹنگ" کے فن سے آشنا ہیں یا "کمپیوٹر کے سافٹ ویر " ایڈوب فوٹو شاپ" کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں ۔ الغرض ویڈیو کیمرہ بھی متحرک تصویر نہیں بناتا ہے بلکہ وہ بھی ساکن تصاویر ہی کھینچتا ہے اور انہی کی " سلائیڈ " "شو" کرتا ہے ۔ اور ان کیمروں سے لی جانے والی تصاویر میں عکس کا پہلو ہر گز نہیں پایا جاتا ہے کیونکہ یہ تصاویر عکس کے بر عکس کسی بھی وقت دیکھی جاسکتی ہیں , خواہ وہ شخص جسکی تصاویر لی گئی ہیں دنیا سے ہی کیوں نہ چل بسا ہو۔ رہی تیسرے گروہ کی اضطرار والی بات تووہ بھی بلکل غلط ہے !!!
کیونکہ اضطرار میں ممنوعہ کاموں کو سرانجام دینے کی جو رخصت اللہ نے دی ہے اس میں بھی قید لگا ئی ہے کہ
یعنی بوقت اضطرار , بقدر اضطرار ممنوع وحرام کی رخصت ہے , وقت اضطرار کے بعد یا قدر اضطرار سے زائد نہیں !!! اور پھر شریعت نے لفظ " ضرورۃ " نہیں بلکہ " اضطرار" بولا ہے۔ اور فقہی قاعدہ " الضرورات تبيح المحظورات" انہی آیات سے مستفاد ہے اور اس میں بھی لفظ ضرورت کا معنى اضطرار ہی ہے ۔ اضطرا ہوتا کیا ہے ؟ یہ سمجھنے کے لیے ہم انہی آیات پر غور کریں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے تو بات بہت واضح ہو جاتی ہے ۔ اللہ تعالى ارشاد فرماتا ہیں :
یقینا تم پر صرف اور صرف مردار , خون , خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے لیے پکارا گیا (ذبیحہ وغیرہ) حرام کیا گیا ہے , تو جو شخص مجبور ہو جائے ,حدسے بڑھنے والا اور دوبارہ ایسا کرنے والا نہ ہو تو اس پر کوئی گنا ہ نہیں ہے یقینا اللہ تعالى بہت زیاد ہ مغفرت کرنیوالا اور نہایت رحم کرنیوالا ہے ۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بھوک کی وجہ سے اگر کوئی شخص مجبور ہو جائے اور اسکی دسترس میں کوئی حلال چیز نہ ہو , اور بھوک کی بناء پر اسکی زندگی کو خطرہ لاحق ہو اور حرام کھانے سے اسکی جان بچ سکتی ہو تو اسکے لیے رخصت ہے کہ جسقدر حرام کھانے سے اسکی جان بچ سکتی ہے صرف اسقدر حرام کھالے اس سے زائد نہ کھائے , پیٹ بھرنا شروع نہ کردے اور پھر دوبارہ اس حرام کی طرف نگا ہ اٹھا کر بھی نہ دیکھے ۔ جبکہ دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے یہ کوئی مجبوری نہیں ہے کہ ویڈیو بنائی جائے , اور دعوت دین ویڈیو کے ذریعہ نہیں آڈیو کے ذریعہ ہی ہوتی ہے حتى کہ ویڈیو میں نظر آنے والے عالم دین کی تصویر لوگوں کو راہ ہدایت پرلانے کا باعث نہیں بنی ہے بلکہ اسکی آواز میں جو دلائل کتاب وسنت کے مذکور ہوتے ہیں وہ کسی بھی شخص کے راہ ہدایت اختیار کرنے یا حق بات پر عمل کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔ یادر ہے کہ ہم مطلقا ویڈیو یا تصاویر کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی صاحب علم مطلقا تصویر یا ویڈیو کو ناجائز کہہ سکتا ہے , کیونکہ ممنوع صرف ذی روح جانداروں کی تصاویر ہیں , بس ویڈیو میں ذی روح کی تصاویر نہ ہوں تو اسکی حلت میں کسی قسم کا کوئی اشکال باقی نہیں رہتا ہے ۔ مذکورہ بالا دلائل کی رو سےیہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ تصویر کی جدید ترین تمام تر صورتیں ناجائز ہیں ان صورتوں میں سے کسی کوبھی اپنا کر ذی روح کی تصویر کشی نہیں جاسکتی ہے اور یہ تصا ویر ہی ہیں عکس نہیں , اور دعوت دین کے بہانے انہیں اضطرار قرار دینا فہم کا سہو ہے ۔
مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-swal-43.html
داڑھی کے سفید بالوں کو چن کر کاٹنا یا اکھاڑنا مکروہ عمل ہے۔ حضرت عمرو بن شعیب کے والد ماجد نے اپنے والد محترم سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
سفید بال کو نہ اکھاڑا کرو کیونکہ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کو مسلمانی کی حالت میں سفیدی آئی۔ سفیان سے مروی ہے کہ وہ قیامت کے روز اس کے لئے نور ہوگا۔ حدیث یحیی میں ہے کہ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک نیکی لکھے گا اور اس کے بدلے ایک گناہ معاف فرمائے گا (یعنی بال کے سفید ہو جانے کے باعث)۔
أبي داود، السنن، 4: 85، رقم: 4202، دار الفکر
یعنی سفید بال اکھاڑنے کی ممانعت ہے اور اگلی حدیث مبارکہ میں بھی یہی بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ سر اور داڑھی کے سفید بالوں کو اکھاڑا نہ جائے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سر اور داڑھی سے سفید بالوں کے نوچنے کو مکروہ سمجھتے تھے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالوں کو نہیں رنگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نچلے ہونٹ کے نیچے، کنپٹیوں اور سر میں چند بال سفید تھے۔
مسلم، الصحیح، 4: 1821، رقم: 2341، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر اور داڑھی سے سفید بال اکھاڑنے سے منع فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر انور اور داڑھی مبارک میں صرف چند بال سفید تھے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رنگا نہیں لیکن سفید بالوں کو رنگنے سے منع بھی نہیں فرمایا بلکہ اجازت عنایت فرمائی ہے۔ احادیث مبارکہ میں ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک یہود اور نصاری خضاب نہیں کرتے، لہٰذا تم ان کی مخالفت کیا کرو۔
بخاري، الصحیح، 5: 2210، رقم: 5559، بیروت: دار ابن کثیر الیمامة
مسلم، الصحیح، 3: 1663، رقم: 2103
ایک روایت میں ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بڑھاپے کو بدلو اور یہودیوں سے مشابہت نہ رکھو۔
أحمد بن حنبل، 2: 261، رقم: 7536، مصر: مؤسسة قرطبة
ترمذي، السنن، 4: 232، رقم: 1752، بیروت: دار اِحیاء التراث العربي
اور سفید بالوں کو بدلنے کا بہترین طریقہ بیان فرمایا:
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک خوبصورت ترین و بہترین چیز جس سے سفید بال بدلے جائیں، مہندی اور خضاب ہے۔
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 147، رقم: 21345
أبو داؤد، السنن، 4: 85، رقم: 4205
درج بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ سر اور داڑھی کے سفید بال چن کر اکھاڑنا مکروہ عمل ہے۔ خوبصورتی برقرار رکھنے کے سفید بالوں کو مہندی یا خضاب سے رنگ دیا جا سکتا ہے۔
مفتی: محمد شبیر قادری